۔1 جب میں اچھی ہدایات دوں تو بچہ میرے کہے پر عمل کیوں نہیں کرتا؟
2۔ جب بچہ ہدایت پر عمل نہ کرے تو میں کیا کروں – کیا بس ہتھیار ڈال دوں؟
۔3کیا ہر مرتبہ کوئی ہدایت دیتے ہوۓ ضروری ہے کہ میں بچے کو چھوؤں؟
4۔ میرے خیال سے سوال پوچھے بغیر خوشگوار انداز میں ہدایت دینا مشکل ہے
5۔ کیا بچوں کو ہمیشہ والدین کا کہنا ماننا چاہیئے؟ آخر بچے روبوٹ تو نہیں ہوتے۔
9۔ کیا جب تک وہ بڑھی نہیں ہو جاتی مجھے حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھنا پڑے گا؟
11۔ کیا اپنے بچوں کو سزا دینا غلط ہے؟
یہ تدبیر کرشمے نہیں دکھا سکتی لیکن اچھی ہدایات کے سبب یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ بچے بہتر تعاون کریں گے۔ یہ اہم ہے کہ پہلے آپ اپنے ہدایات دینے کے طریقے کی تفصیل نوٹ کر کے اسے جانچیں تاکہ اس معاملے میں آپ کی توقعات ضرورت سے زیادہ نہ بڑھ جائیں کہ بچہ ہر ہدایت کیلئے تعاون کرے گا۔ عادتیں بدلنے میں وقت لگتا ہے۔
خود اس صورتحال میں موجود رہنے کی کوشش کریں اور بچے کو تعاون کا موقع دیں۔ اگر بچہ پھر بھی بات نہ سنے تو ذرا سا دور ہٹ جائیں تاکہ سکون برقرار رہے۔ اگر آپ کے خیال میں آپ پرسکون رہ سکتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد واپس جا کر دوبارہ کوشش کریں ۔
قریب ہو کر اور چھو کر بات کرنے سے اکثر بچے کی توجہ حاصل کرنے میں فائدہ ہوتا ہے لیکن آپ یہ بھی آزما کر دیکھ سکتے ہیں کہ اگر آپ بچے کو نام سے بلائیں یا کہیں "میری طرف دیکھو" تو کیا پھر بھی وہ اتنے ہی دھیان سے بات سنتا ہے۔
ہدایت دینے کی بجاۓ سوالیا انداز میں بات کرنا خوشگوار لگ سکتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ پوچھیں گے تو بچہ انکار کر سکتا ہے۔ نرم آواز میں بات کریں اور ہدایت کے آخر میں ایسے الفاظ کہیں جیسے "پلیز، میرا اچھا بچا یہ کام کرے گا، وغیرہ" تو آپ کی ہدایت خوشگوار بھی ہو جاۓ گی اور آپ کو سوالیا انداز میں بھی ہدایت نہیں دینی پڑے گی۔
بچے ہمیشہ ہمارا کہنا نہیں مانتے ۔ ہمیں پتہ ہے کہ جو بچے 10 مرتبہ میں سے 7 مرتبہ کے قریب بڑوں کا کہنا مانتے ہیں، اصل میں وہی بچے ذیادہ تر بہتربھی رہتےہیں۔
حوصلہ افزائی کے بغیر بچوں سے اچھے رویّے کی توقع کرنا غیر حقییقی ہے۔
اگر والدین ایک رویّے یا حرکت کو توجہ دیں گے تو بچے کا وہی رویّہ دہرانے کا زیادہ امکان ہو گا۔
اچھے رویّے کے بارے میں کبھی یہ مت سوچیں کہ 'ہاں، یہی تو کرنا چاہیئے' کیونکہ اس طرح یہ رویّہ بڑی جلدی غائب ہو سکتا ہے۔ پسندیدہ رویّے کو مثبت توجہ دی جاۓ تو بچے کو سیکھنے میں زیادہ حوصلاافزای ملتی ہے۔
جو بچے رویّے میں موشکل ہوتے ہیںع ، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے لیکن اسی لیے ان بچوں کو دوسرے بچوں کی نسبت حوصلہ افزائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بچے اکثر اپنے بارے میں منفی راۓ قائم کر چکے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی طرح بھی کامیاب نہیں سمجھتے۔ اگر کوی ان کی کسی خوبی کا ا اقرار کرے تو ان کیلئے یہ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ والدین کو مثبت راۓ دینے کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے رویّے کو تلاش کر کے بچےکی حوصلہ افزائی کرنا اور انعام دینا خواہ تعریف پر بچے کا کوئی رّدعمل دکھای دیتا ہو یا نہ۔ کوئی نی چیز سیکھنے کیلئے ذیاداہ حوصلا افزای کی ضرورت ہوتی ہے۔
شروع میں سب لوگوں کو یہ قدرتی نہیں لگتا۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ انداز اپنانےمیں کچھ وقت لگے۔ چونکہ بچے اپنے ارد گرد کے لوگوں کا رویّہ نقل کرتے ہیں، اس لیے آپ کا بچہ کیسے سیکھتا ہے اور کیا سیکھتا ہے آپ اس کو خود بہت اثرانداز کرتے ہیں۔ اس لیے اپنے رویّے کو ذہن میں رکھیں۔
آپ بچے کے سامنے جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں، اس سے بچے کے سوچنے کا انداز اور رویّہ متاثر ہوتا ہے۔ آپ بچے کیلئے رول ماڈل بن جاتےہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو بچے کافی حد تک منفی رویّا رکھتے ہیں، انہیں بدلنے کیلئے تعریف اور حوصلہ افزائی بہت اہم ہے۔ خاص طور پر شروع میں والدین کو یہ بناوٹی لگتا ہے۔ یہ ذھن میں رکھیں کہ یہ بھی ایک ایسا کام ہے جس کیلئے مشق ضروری ہے۔ حوصلا افزائی کو مخصوص کرنے کی کوشش کریں-اس سے آپ کو یہ بناوٹی کم مہصوص ہوگا۔ آپ صرف یہ کہنے کے کہ اچھی بات، شاباش وغیرہ، آپ یہ کہہ سکتے ہیں، آپ نے جیکٹ اپر لٹکا کربہت اچھا کیا!، میرے پڑاکو بچے نے تو سکول کا کام شروع بھی کر دیا، کتنی اچھی بات ہے کہ آپ دونوں اکٹھے کھیل رہے ہیں،وغیرہ۔
بالعمومن جیسے جیسے بچا صلاحیت سیکھ جاتا ہے تو آہستہ آہستہ حوصلہ افزائی کا سلسلہ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس صلاحیت کو برقرار رکھنے کیلئے آپ ویسے ہی کبھی کبھارحوصلہ افزائی کرتے رہیں۔ اگر پھر مسائل کھڑے ہو جائیں تو باقایدہ تور پر حوصلہ افزائی دوبارہ سے شروع کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر بچوں کیلئے کچھ عرصے بعد ہفتہ وار پیسوں کا فارم ہی کافی رہتا ہے۔ البتہ تجربے کی روشنی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ بچوں، خاص طور پر ADHD والے بچوں، کو لگاتار حوصلہ افزائی کے طریقوں کی ضرورت رہتی ہے۔ کچھ بچوں کوجو اس طرح سے نظام بنتا ہے اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
آپ اس طریکے کو تب تک استعمال میں رکھیں جب تک کہ آپ جو رویّہ سکھا رہے ہیں وہ پختہ نہیں ہو جاتا اورآپ اسے بچے کی مستقل عادت میں شمار نہیں کر لیتے یعنی آپ کو وہ کام کرانے کیلئے یاد دہانی نہ کرانی پڑے اور نہ ہی پیچھے پڑنے کی ضرورت پڑے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ سخت نظر رکھیں کہ کیا ہو رہا ہے، طریکا جو استعمال کرتے ہیں اس پر دیھان دیں اور درج کرتے رہیں۔
اس طرح یہ جاننا آسان ہو جاۓ گا کہ آپ کب آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ درحقیقت والدین ہی کا کام ہے کہ فارم کو "زندہ" رکھا جاۓ اورایک مقرر کیے گیے وقت میں فارم کا بغور مطالعہ کیا جاۓ اور اس میں دلچسپی لی جاۓ۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ اب حوصلہ افزائی کے طریقے میں دلچسپی نہیں رہی تو آپ اس پر غور کریں کہ اس کے نا اثر ہونے کی وجہ کیا ہے۔ شاید انعام کوبدلنے کی ضرورت ہو یا مراحل میں ردّو بدل کی ضرورت ہو تاکہ مراحل مناسب حد تک بڑے ہوں، نہ وہ بہت آسان ہوں نہ بہت مشکل ۔
بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے انہیں حدود اور پابندیوں کی ضرورت ہوتی ہے ؛ اسی سے انہیں اچھے برے کا پتہ چلتا ہے۔ مثبت نتائج یعنی انعام اور شاباش وغیرہ کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار منفی نتائج دلانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ مشکل رویّے کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ چھوٹے نتائج ظاہر کر کے، جن کے بارے میں بچہ پہلے سے اندازہ لگا سکتا ہو، آپ ان صورتحال سے بچ سکتے ہیں جن سے اختلافات شدید ہو سکتے ہوں یا آپس میں تعاون ختم ہو سکتا ہو۔ مثبت نتایج کی درست مکدار اہم ہے :یہ یاد رکھیں )5:1ہر ایک ٹوک کے بدلےمیں 5 تعریفیں(۔
بچوں کو ان کی حرکتوں کے نتائج دینے کا انتقام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اہمیت رکھتا ہے کہ بچے یہ فیصلہ کرنا سیکھتے ہیں کہ وہ اصولوں کی پابندی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
تبدیلی کی ضرورت اس لیے ہے کہ غصہ دکھا کر بچے کے رویّے میں دور رس مثبت تبدیلیاں نہیں لائی جا سکتیں۔ کئ والدین کو اپنے بچوں پر غصہ کرنا ناگوار لگتا ہے۔ زیادہ تر بچے بڑوں کو غصے میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔ بڑوں کا غصہ بڑھ جانے کا بھی ایک خطرہ ہوتا ہے۔ بچوں کیلئے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ بڑوں کے غصہ کیے بغیر انہیں کہنا ماننا ہے۔ یہ بچے کے سکول میں اورآگے عملی زندگی کیلئے یہ ایک ضروری تجربہ ہے ۔
سروس معلوم کر سکتے ہیں PMTO یہاں پر آپ اپنا پوسٹل کوڈ یا شہر لکھ کر اپنی قریبی.
اگر یہ عبارت پڑھنے میں دقت پیش آ رہی ہے تو آپ کوئی اور براؤزر استعمال کیجئے،مثلاً٬ : Chrome, Safari, Internet Explorer
*We are happy to receive general inquiries, but please do not send sensitive information about your own or others' health as this should only be shared with relevant health personnel.
We uses cookies on this website. By using this site, you agree that we may store and access cookies on your device. Read more about cookies here. Do not show this message again.